This is a lovely documentary on her work. Very well made.
{youtube}wqh5r0RL8ec{/youtube}
Thanks a lot to Raja Swaminathan ji for sharing the linkwith us.
Request all fans of Madam to share more material on her for the website. Thanks.
Dedicated to the Legendary Singer and Actress
This is a lovely documentary on her work. Very well made.
{youtube}wqh5r0RL8ec{/youtube}
Thanks a lot to Raja Swaminathan ji for sharing the linkwith us.
Request all fans of Madam to share more material on her for the website. Thanks.
”جب سازچِھڑا کوئی آواز تری آئی“
بیاد نورجہاں
تحریر: انعام ندیم
نورجہاں کی گائکی سراسر حسنِ ادائیگی سے عبارت ہے۔ ان کی آواز توانائی اور مسرت کی ایک ایسی مثال تھی جو فی زمانہ نایاب ہوچکی ہے اور ”ملکہ ترنم“ جیسا لقب بھی ان کے فن کا پورا احاطہ نہیں کرسکتا۔ وہ شاید برِصغیر کی واحد فطری گلوکارہ تھیں، یہ محض ان کی آواز کا کرشمہ تھا کہ سننے والے مبہوت رہ جاتے تھے۔ کوئی ہندوستانی یا پاکستانی گلوکارہ بمشکل ایسی بے پناہ گائکی کے قریب آسکی ہے۔ سننے والوں کے لیے وہ ایک گلوکارہ سے بڑھ کر مقام رکھتی تھیں۔ نورجہاں ایک صاحبِ طرز اور سحر انگیز مغنّیہ کے طور پر ابھریں اور اپنے فنی دور کی ابتدا ہی میں موسیقاروں کی ضرورت بن گئیں، وہ تمام موسیقاروں کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتی تھیں، یہاں تک کہ ہر موسیقار ان کے لیے دُھن بنانے میں فخر محسوس کرتا تھا، شاید اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ نورجہاں کے گلے کا نور ان کی دُھن کو رعنائی عطا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
برصغیر میں ایک سے بڑھ کر ایک مغنّیائیں ہیں جنہیں لوگوں کی پسندیدگی حاصل ہے، لیکن یہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ جب نورجہاں کی آواز بلند ہوتی ہے تو پھر لوگ کسی اور کو سننا نہیں چاہتے۔ نورجہاں میں غالباً ایک ابدی رومانیت پنہاں تھی اور ان کے نغموں کا ہر بول ان کے دل کی گہرائیوں سے اُبھرتا تھا، انہیں آواز کے اظہارمیں ایک نمایاں خصوصیت حاصل تھی۔ ان کا خاص انداز جو انہیں دوسری تمام گلوکاراو¿ں سے یکسر ممتاز کرتا ہے، ادائیگی کا وہ فطری اور پُرکشش اسلوب ہے جس کے ذریعے وہ ہرطرح کے جذبات اور کیفیات کو پیش کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ انہوں نے فلمی تقاضوں کے تحت بنائے گئے ہلکے پھلکے نغموں میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو اس مہارت سے پیش کیا اور اس طرح اپنی گلوکاری کا حصّہ بنایا کہ سطحی معیار کے فلمی گانوں کو ایک فنی وقار عطا کردیا۔ گانے کا یہ اندازِ پیشکش ہی ان کی وہ مخصوص خوبی بن گیا جس کی بدولت دنیا انہیں ملکہ ترنم کہنے لگی۔ انہوں نے سیدھی سادی دُھنوں میںوہ فنّی کمالات دکھائے کہ کلاسیکی موسیقی کے بڑے بڑے اُستاد اور موسیقار حیران رہ گئے۔ جو فنّی مہارتیں جو کوئی کلاسیکی گائک ڈیڑھ گھنٹے کے راگ میں ادا کرتا ہے، نورجہاں نے تین منٹ کے فلمی گانے میں ادا کر کے دکھا دیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ موسیقار اوّلاً اپنی دُھن کے بارے میں سوچتے تھے لیکن جب نورجہاں آجاتی تھیں تو صرف نورجہاں کے بارے میں سوچتے تھے۔ کسی بھی دُھن کو گاتے ہوئے وہ اپنی ادائیگی کی بدولت بعض ایسی خوبیاں پیدا کردیتی تھیں جو خود موسیقار کے ذہن میں بھی نہیں ہوتی تھیں۔ ان کے ساتھ سنگت کرتے ہوئے سازندوں کو غیر معمولی طور پر محتاط رہنا پڑتا تھا، پاکستان میں موسیقار ان کی آواز کی پرستش کرتے تھے اور خاص ان کی صوتی قوّت کو مدِ نظر رکھ کر بلند آہنگ دُھنیں تخلیق کرتے تھے۔70 سے90 کے عشرے کے پنجابی فلمی گانے اس بات کا مدلّل ثبوت ہیں۔
اپنے صاف ستھرے نستعلیق اُردو تلفظ میں نورجہاں نے۰۴ء سے ۰۶ ءتک کی دہائی میں جو فلمی گانے گائے وہ آج تک ان کا بہترین کام سمجھے جاتے ہیں، پھر اس کے بعد نورجہاں کے پنجابی نغموں کے جہان کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ ایک حیران کُن دنیا تھی جس پر اوّل و آخر نورجہاں کی حکمرانی تھی اور مرتے دم تک رہی۔ ان کی توانا آواز نے پنجاب کے کھلے ماحول اور نسبتاً سادہ اور بے باک روّیوں کی عکاسی جس طرح اپنی گائیکی میں کی ہے، کوئی اور نہ کرسکا۔ اس کا آغاز ساٹھ کی دھائی کے آخری برسوں میںہوا جب ان کی آواز میں ملائمت اور نرمی کی کمی واقع ہونا شروع ہوگئی تھی، شاید آواز کا یہ بھاری پنان کی بڑھتی ہوئی عمر کا تقاضہ تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ چیز پنجابی نغموں کی گائکی میں ان کے بہت کام آئی۔ چونکہ وہ اپنی آواز کو کیفیات کے مطابق تبدیل کرنے کا ہنر جانتی تھیں اور گانے میں پوری فنّی چابکدستی کا مظاہرہ کیا کرتی تھیں اس لیے پنجابی گانوں میں ان کی آواز کی توانائی اور نچلے سروں کے ساتھ ساتھ تیسری سپتک کے انتہائی اونچے سروں پر ان کی مکمل گرفت نے ایسا رنگ جمایا جسے یکتائی کا حامل کہا جاسکتا ہے، اور صرف کیفیات کا اظہار ہی نہیں بلکہ وہ الاپ، تان،پلٹے اور مرکیوں میں بھی ایسا تنوع پیدا کردیتی تھیں جس کی مثال فلمی گائیکی میں کہیں نہیں ملتی۔ ان کا گانا کلاسیکی نہ ہوتے ہوئے بھی اسی فریم میں جڑا ہوا محسوس ہوتا تھا۔
سازوں کے ساتھ اپنی آواز کا تال میل بنائے رکھنے میں انہیں غضب کی مہارت حاصل تھی۔ طبلے یا ڈھولک پر سم کے مقام پر وہ بول کو،غیر محسوس طریقے سے ، یوں جھٹکے سے ادا کرتی تھیں جیسے کلاسیکی گائک اداکیا کرتے ہیں۔ استھائی کے بیان اور انترے کی اٹھان میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔ انہیں پنجابی اور اُردو پر یکساں قدرت حاصل تھی اور وہ دونوں زبانوں میں ایک جیسی مہارت سے گایا کرتی تھی۔ بالخصوص پنجابی میں انہوں نے سُننے والوں کو نئے نئے لہجوں اور کیفیتوں سے روشناس کرایا ان کے پنجابی طربیہ نغمے پُر جوش مسرت سے لبریز محسوس ہوتے ہیں۔ انہوں نے آواز میں شوخی اور چنچل پن پیدا کرکے ان نغموں میں مسرت کے غیر معمولی تاثر کو پیش کیا ہے، بعض مقامات پر یہ پُر جوش کیفیت بڑھ کر وجد میں تبدیل ہوجاتی ہے اور سننے والے کو نئی نئی حیرتوں سے دوچار کرتی ہے۔
ان کے گلے میں ایک قدرتی سوز تھا جو کہ المیہ نغموں کے لیے نہایت موزوں تھا، اور انہوں نے اپنے المیہ نغموں میں اس کا نہایت خوبی سے استعمال کیا۔ ان نغموں میں انہوں نے اپنی آواز کے فطری گداز اور بے مثل ادائیگی کی بدولت، حزن اور ملال کے تاثرات کو گہرا کرکے دکھایا اور نا اُمیدی، بے چارگی اور بے بسی جیسی کیفیات کی ایسی منظر کشی کی ہے جو سننے والوں کو ایک گہری یاسیت میں مبتلا کردیتی ہے۔
انہوں نے ہر سطح کے گانے گائے اور ہر بڑے گلوکار کی طرح ان کے حصے میں اچھا اور برا، دونوں طرح کا کام آیا، لیکن انہوں نے دونوں طرح کے کاموں سے انصاف کیا۔ بدقسمتی سے پنجابی فلموں کے لیے گائے گئے بعض لچر شاعری پر مشتمل فلمی گانوں والی امیج، عوام کی نفسیات سے ایسی چپک کر رہ گئی ہے کہ لوگوں کا دھیان ان کے شاندار کام کی طرف کم ہی جاتا ہے۔ عام طور پر سنجیدہ حلقوں میں ان ’غیر شائستہ“ مجرے کے نغموں پر سخت تنقید کی جاتی ہے، اگرچہ یہ مبتذل اور کچھ مخصوص طرزِ ادا کے نغمے مقبول تو ہوئے، مگر معیار کے دائرے کو محدود کرگئے۔ لیکن یہ بھی ایک عجیب و غریب حقیقت ہے کہ ان ”سستے اور بازاری“ نغموں میں بھی نورجہاں نے جو فنی کمالات دکھائے ہیں وہ کسی عام مغنیہ کے بس کی بات نہیں تھی۔ سب سے پہلی چیز تو وہی حسن ادائیگی والی خوبی ہے، محض لفظوں کی ادائیگی سے وہ ماحول کی جو تصویر کھینچتی ہیں اس میں اُس کردار کی ،کہ جس پریہ گانا فلمایا جانا ہے، ساری شخصیت مصوّر ہو کر سامنے آجاتی ہے۔ ان گانوں میں جو عشوہ گری اور الہڑ پن کا تاثر ہے وہ بلاشبہ ایک فنّی مہارت ہے۔
ان کی آواز میں ایک عجیب و غریب قوّت اور کرشماتی کیفیت کا اظہار تھا اور انہوں نے اس قوت اور کیفیت کو بڑی محنت اور تندہی سے برقرار رکھا اور اس میں اضافہ کیا تھا، اس کا ایک ثبوت80 اور90 کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن کا پروگرام ”ترنم“ ہے جس میں انہوں نے اپنے پرانے گانوں کو ازسر نو گایا اور سننے والے حیران رہ گئے کہ انہوں نے اپنے بعض نغموں کو پہلے سے زیادہ خوبصورت بنادیا تھا۔
سماجی سطح پر بھی وہ ایک صاحب طرز شخصیت تھیں اور انہوں نے شوبز کے حوالے سے پاکستانی سوسائٹی پر گہرے اور انمٹ نقوش مرتب کیے۔ انہیں بچّوں سے لے کر بوڑھوں تک کی پسندیدگی حاصل تھی۔ وہ اپنے بناو¿ سنگھار کے بارے میں ہمیشہ بہت حسّاس رہتی تھیں، ان کے ٹیلی ویژن پروگراموں کے ذریعے سے ان کی جھلملاتی ساڑھیاں، جگمگاتے زیورات اور شوخ میک اپ، لوگوں کے نزدیک ان کی شخصیت کا حصّہ بن گئے۔ یہ ایک عجیب بات تھی کہ عمر رسیدگی کے باوجود ان کے بھڑک دار کپڑے، لوگوں کو کبھی اوپرے نہیں لگے، غالباً اس کے پیچھے خود نورجہاں کے ساتھ پاکستانی عوام کی گہری محبت اور عقیدت وابستہ تھی۔ وہ ایک حسین عورت تھیں اور اس بات کو ہمیشہ یاد رکھتی تھیں۔ اپنے فن کے علاوہ وہ اپنی شخصیت کو نکھارنے کے لیے بھی ہمیشہ کوشاں رہتی تھیں۔
انہیں ایک صاحبِ طرز اور طرحِ نو ڈالنے والی گلوکارہ مانا گیا اور اپنی زندگی ہی میں انہیں، ایک گلوکارہ کے طور پر، اپنی ذات میں ایک ادارہ تسلیم کیا گیا۔ آج ہم الکا یاگنک سے لے کر نصیبو لعل تک کی گائیکی کے بارے میں بہت کچھ سنتے ہیں لیکن کیا ان سب کی گائیکی کا نورجہاں کی آواز اور ادائیگی سے کوئی مقابلہ ہے؟ ہندوستان کے ممتاز موسیقار سجاد حسین نے ایک بار کہا تھا کہ ”خدا نے نورجہاں اور لتاکو گانے کے لیے پیدا کیا ہے، پھر میں یہ نہیں سمجھ پاتا کہ اس نے دیگر گلوکاراو¿ں کو پیدا کرنے کی زحمت کیوں کی؟“ نورجہاں برِصغیر پاک وہند کی واحد گلوکارہ تھیں جن کی بہت کم لوگ نقالی کرسکے اگر چہ ان کی طرح گانے کی سینکڑوں نے کوشش کی۔ بہت سوں نے ان کی تقلید کی اور گمنام ہوگئیں ، کچھ اب بھی ان کی نقل کرتی ہیں اور عزت پاتی ہیں۔٭
If you wish to add articles to the site too, Do please get in touch with us.
By Ally Adnan
Malika E Taranum Noor Jehan was not in a good mood when I met her for the first time in my life. She was standing behind the glass wall of the recording room at Shahnoor Studios in Lahore and was very upset. Everyone could hear a litany of obscenities in Punjabi coming out of her mouth on the Speakers. I had been waiting for as long as I could remember to see Madam Ji – as she was called by those in the industry and those close to her – in person and had been unable to sleep with excitement the night before. These were not the words I was expecting to hear in her voice. Once she had the obscenities out of her system, she took a brief pause, and said something decidedly naughty but rather charming and started laughing.
{datsopic:198 right}
Madam was recording a song for Nazir Ali that day. Flautist, Khadim Hussain, was the target of her ire. She was unhappy with the interlude he was playing and with his interpretation of raag Darbari. And standing behind the glass wall she made sure that he – and everyone else present – knew. Her words, albeit crass, were delivered with style and a tinge of humor. Her laugh at the end of the tirade was silvery and naughty, showing pleasure, embarrassment and incredulity simultaneously at having said something off color in public. In meetings that followed, I sometimes saw her utter profanities that would make bouncers at the kothas in Heera Mandi blush, some that I do not understand to this day; but she was never vulgar. Only Madam Ji could do this – deliver every word she uttered with style and class. Everything she did was
done with class. No one had more class in the industry at the time; and no one has had it since.
Madam’s voice was a gift from God. In this holy month, enjoy this lovely Naat sung by her as “Baby Noorjehan” for G.A. Chisti sahab. The songs words are, “Jogan Ki Jholi Bhar De” and are an absolute delight.
Enjoy listening to this delightful Naat.
{youtube}SRga7kK0V24{/youtube}
On the occasion of this holy month of Ramadan, Madamnoorjehan.com presents this lovely album Salle Ala Muhammad for your listening pleasure. May this help you in your prayers.
This album, Salle Ala Muhammad, has Madam singing five Naats with Saeed Hashmi:-
1. Aalam ke shehryaar banaaye gaye hain aap
2. Duniya hai aik dasht….
3. Mehkaaye huwe dil mein gulistaan-e-Muhammad
4. Ronaq-e-Bazm-e-Anbiyah
5. Ya Mohammad hai saara jehan aapka
Enjoy listening to the five Naats below:-
{loadposition saeedhashmi}
HUMJOLI
Year: 1946
Starring: Noor Jehan, Jairaj, Jillobai, Ghulam Mohammad, Zeenat Begum
Producer : Abdullah Productions
Director : Luqman, Ismaeel Meimon
Music Director : Hafiz Khan
Lyrics : Anjum Pilibhity
Songs :
1. Dukh Dard Se Jag Mein Koi – Noor Jehan
2. Phoolon Mein Nazar Yeh Kaun Aaya – Noor Jehan
3. Yeh Desh Hamara Hindustan – Noor Jehan
4. Bhagwan, Kab Tak Teri Duniya – Noor Jehan
5. Raaz Khulta Nazar Nahin Aata – Noor Jehan
WATCH ‘HUMJOLI’ SONGS:
{youtube}454D092E80C4DCC7{/youtube}
ANMOL GHADI
Year: 1936
Starring: Noor Jehan, Suraiya, Surendra, Zahoor Raja, Anwari, Leela Mishra, Anwari Begum, Bhudo Anvari, Murad
Producer : Mehboob Productions Ltd.
Director : Mehboob Khan
Music Director : Naushad
Lyrics : Tanvir Naqvi & Anjum Pilibhity
Songs :
1. Awaz De Kahan Hai – Noor Jehan & Surendra (Lyrics: Tanvir Naqvi)
2. Kya Mil Gaya Bhagwan – Noor Jehan (Lyrics: Anjum Pilibhity)
3. Mere Bachpan Ke Saathi – Noor Jehan (Lyrics: Tanvir Naqvi)
4. Jawan Hai Mohabbat – Noor Jehan (Lyrics: Tanvir Naqvi)
5. Aaja Meri Barbad Mohabbat – Noor Jehan (Lyrics: Tanvir Naqvi)
Film Synopsis :
A love-triangle with reformist overtones set partly in Bombay. Impoverished hero Chander (Surendra) and rich heroine Lata (Noor Jehan) are childhood sweethearts separated when Lata’s parents move to Bombay. Later Chander moves there when his rich friend Prakash (Zahoor Raja) finds him work in a musical instruments shop. By then, Lata has become a famous poetess going by the name of Renu and is engaged to Prakash. Lata’s friend Basanti (Suraiya) falls in love with Chander but he remains true to his childhood girl and walks away into the sunset (with Basanti running after him). Although Mehboob made other triangular romances (Hum Tum Aur Woh – 1938, Najma – 1943 etc.) this film started his investigation of patriarchy, shown as masquerading under ‘eternal’ values (Anokhi Ada – 1948, Andaz – 1949). The film deploys a strident rhetoric about class divisions, opposing poverty to eternal human(ist) values such as friendship and love. Languorous gesture and a romantically lit neo-classical decor are used to suggect femininity. Musical hits include Noor Jehan’s best known songs e.g. Awaz De Kahan Hai (with Surendra) and solos Mere Bachpan Ke Saathi, Jawan Hai Mohabbat.
– Encyclopaedia of Indian Cinema – Ashish Rajadhyaksha & Paul Willemen – New Revised Edition 1999
WATCH ‘ANMOL GHADI’ SONGS:
{youtube}75E50EC891F0A697{/youtube}
DIL
Year: 1946
Starring: Noor Jehan, Abdul Latif, Ghauri, W A M Khan, Geeta Bos, Anis.
Producer : Fazli Brothers Ltd. (A Hasnain Production)
Director : Hasnain Fazli
Music Director : Zafar Khursheed
Lyrics : Shams Lakhnavi, Syed Arsh Haidry & Razi Banarsi
Songs :
1. Deke Mujhe Woh Dard-E-Jigar Bhool Gaye – Noor Jehan
2. Aayi Ghadi Suhani – Noor Jehan
3.Aye Hawa Ja Ja – Noor Jehan
4. Chali Gaadi Dhuwan Udati – Noor Jehan & Moti
5. Baaba Mere Chhot Gaey – Noor Jehan
6. Bhanwre Shor Na Karna – Noor Jehan & Moti Lal